ہجڑا فیسٹیول 2025 — شناخت، آزادی اور وقار کی جدوجہد کا نیا باب

حسن پٹھان

ہجڑا فیسٹیول 2025 — شناخت، آزادی اور وقار کی جدوجہد کا نیا باب

کراچی کے برنس گارڈن میں منعقد ہونے والا ہجڑا فیسٹیول 2025 اس سال ایک نئے انداز میں سامنے آیا، جو صرف رقص و رنگ کا میل نہیں بلکہ سماجی بیداری، شناخت اور انسانی برابری کی علامت بن گیا۔ اس سال فیسٹیول کا مرکزی موضوع "ماحولیات سے شناخت تک، جدوجہد سے آزادی تک" رکھا گیا، جو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی کثیرالجہتی جدوجہد — یعنی سماجی قبولیت، وقار، اور ماحولیاتی شعور — کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ فیسٹیول اس حقیقت کا مظہر ہے کہ خواجہ سرا افراد محض اپنے وجود کی تسلیمیت نہیں چاہتے بلکہ ایک محفوظ، باوقار اور مساوی معاشرتی مقام کے طالب ہیں۔ تاہم ہمارا معاشرہ اب بھی ان کی شناخت کو انسانی برادری کے مساوی درجے پر تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ 25 اکتوبر 2025 کو منعقد ہونے والے اس فیسٹیول میں خواجہ سرا کمیونٹی نے ایک ریلی بھی نکالی، جس میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواجہ سرا افراد کے لیے مخصوص نشستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ نمائندگی کے بغیر کسی بھی طبقے کی ترقی ممکن نہیں، اور یہ مطالبہ جمہوری شمولیت کے بنیادی اصول کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل محض قانونی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی نوعیت کے ہیں۔ تشدد، بائیکاٹ اور قتل کے واقعات میں اضافہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرتی تنگ نظری نے ان کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ بہت سے والدین اپنی اولاد کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیتے ہیں کہ وہ مرد یا عورت کی روایتی تعریف پر پورا نہیں اترتے، جس کے بعد وہ سڑکوں پر بے یار و مددگار رہ جاتے ہیں۔ تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ سے محرومی انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ رقص، مانگنے یا جسم فروشی جیسے پیشوں کی طرف جائیں — اور یہی وہ معاشرہ ہے جو بعد میں ان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں خواجہ سرا برادری نے درباروں، فنون لطیفہ اور روحانیت میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر نوآبادیاتی دور کے بعد انہیں ایک ’ممنوع‘ شناخت میں تبدیل کر دیا گیا۔ آج کے پاکستان میں انہیں ووٹ ڈالنے، علاج معالجے اور روزگار کے بنیادی حقوق تک رسائی نہیں — اسپتالوں میں مخصوص وارڈ نہیں، دفاتر میں قبولیت نہیں، اور نظام انصاف میں جگہ نہیں۔ 2018 میں ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ منظور ہوا، جس نے شناخت، تعلیم، ملازمت اور وراثت کے حقوق فراہم کیے، مگر عملی نفاذ نہ ہونے کے برابر رہا۔ پولیس اور سرکاری ادارے شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور انصاف تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں خیبر پختونخوا اور سندھ میں ٹرانس جینڈر افراد کے قتل کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن بیشتر کیسز میں نہ ملزمان گرفتار ہوئے اور نہ انصاف ملا۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 70 فیصد ٹرانس جینڈر افراد ڈپریشن یا سماجی اضطراب میں مبتلا ہیں۔ ان کے لیے ذہنی صحت کے مراکز، کونسلنگ یا سوشل سپورٹ کے نظام کا کوئی بندوبست موجود نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام، اسکالرشپ اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کرے۔ اسپتالوں میں ان کے لیے الگ وارڈز بنائے جائیں، اور پولیس کو صنفی حساسیت کی تربیت دی جائے۔ میڈیا میں انہیں مزاح یا تمسخر کے بجائے حقیقت پسند، باوقار کرداروں میں دکھایا جائے۔ ہجڑا فیسٹیول 2025 دراصل ایک اجتماعی اعلان ہے — کہ معاشرہ خواجہ سرا افراد کو انسان سمجھنا سیکھے۔ ان کا وجود کسی سوالیہ نشان کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے اپنی شناخت، وقار اور آزادی کے لیے برسوں لڑائی لڑی، وہ ہماری سوسائٹی کے کمزور نہیں بلکہ سب سے باہمت طبقے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑا ہونا صرف ہمدردی نہیں بلکہ انسانیت کا فریضہ ہے، تاکہ پاکستان ہر انسان کے لیے ایک باوقار اور مساوی وطن بن سکے۔