سندھ میں ڈینگی وائرس ایک بار پھر وبائی شکل اختیار کر چکا ہے، جبکہ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔ صوبائی محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس سال سندھ میں ڈینگی کے کل 819 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور صرف ایک موت ریکارڈ کی گئی ہے، مگر اسپتالوں اور لیبارٹریز سے حاصل کردہ آزاد اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقت کہیں زیادہ سنگین ہے۔ صرف چھ ہفتوں کے مختصر عرصے میں ڈینگی کے اصل کیسز 12 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں، جبکہ کم از کم چھ افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی رپورٹ کے مطابق، کراچی ڈویژن میں ڈینگی کے تصدیق شدہ کیسز 579 اور حیدرآباد میں 119 بتائے گئے ہیں۔ تاہم، کراچی کے تین بڑے اسپتالوں — انڈس اسپتال (IHN)، لیاقت نیشنل اسپتال (LNH)، اور سندھ انفیکشس ڈیزیز اسپتال و ریسرچ سینٹر (SIDHRC) — سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1 ستمبر سے 16 اکتوبر تک 2,972 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
اسی دوران جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) نے جولائی سے اب تک 1,062 کیسز رپورٹ کیے، جبکہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال (AKUH) میں بھی کیسز میں نمایاں اضافہ اور چند اموات رپورٹ ہوئیں۔ “یہ اعداد و شمار زمینی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے”۔ ان کے مطابق، اگر حکومت درست رپورٹنگ نہیں کرے گی تو مرض کو کنٹرول کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
سندھ کے مختلف اضلاع میں ڈینگی اور ملیریا کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کچھ اضلاع میں صورتحال نہایت تشویشناک ہے, بدین: 19,478, جیکب آباد: 17,170, میرپورخاص: 12,699, شہید بے نظیر آباد: 12,467, ٹھٹھہ: 10,995, ٹنڈو محمد خان: 10,579, خیرپور: 9,967, سانگھڑ: 7,409, حیدرآباد: 7,054, ٹنڈو الہیار: 6,702, مٹیاری: 6,064, شکارپور: 6,875, تھرپارکر: 4,297, کشمور: 4,292, سکھر: 4,187, نوشہروفیروز: 3,563, گھوٹکی: 2,867, عمرکوٹ: 2,327 یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بیماری صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب دیہی علاقوں تک بھی پہنچ چکی ہے، جہاں صحت کی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات ناقص فومیگیشن، بارش کے بعد پانی کی نکاسی میں تاخیر اور خراب سیوریج نظام ہیں۔ بارشوں کے بعد جب پانی کا مناسب نکاس نہیں ہوتا تو وہ مچھروں کی افزائش کے لیے مثالی ماحول فراہم کرتا ہے۔ کئی علاقوں میں برساتی پانی تالابوں کی شکل میں جمع رہتا ہے، جو ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔ ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض کو 70 فیصد تک احتیاطی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے، مگر حکومت اور بلدیاتی اداروں کی جانب سے فومیگیشن مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں، جن کا اثر عملاً محسوس ہی نہیں ہوتا۔
کراچی، حیدرآباد سميت دیگر شہروں کے اسپتالوں میں مریضوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق، بہت سے لوگ ڈینگی یا ملیریا کی ابتدائی علامات کو عام بخار سمجھ کر گھریلو علاج کرتے ہیں، جس سے مرض بگڑ جاتا ہے اور مریض پلیٹ لیٹس کی کمی، کمزوری اور بلڈ پریشر میں کمی کے باعث خطرناک حالت میں اسپتال پہنچتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق، “روزانہ 1200 سے 1600 مریض اسپتالوں میں آ رہے ہیں، جن میں بخار، کھانسی، گلے کا درد، جسم میں درد اور تھکاوٹ عام علامات ہیں۔” اس کے ساتھ ہی وائرل فلو اور آنکھوں کی بیماری “کنجیکٹیوائٹس” (اکھوں کی سرخی یا الرجی) کے کیسز بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے عوامی آگاہی انتہائی ضروری ہے۔ بیشتر لوگ نہیں جانتے کہ ڈینگی کے مچھر صاف پانی میں پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ صرف گندے نالوں میں۔ گھروں میں پانی کی ٹینکیوں کو بند رکھنا، برتنوں اور بالٹیوں میں جمع پانی کو خالی کرنا اور بچوں کو مچھر بھگانے والی کریم لگانا جیسے اقدامات عام سطح پر اختیار نہیں کیے جاتے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جب محکمہ صحت کے ترجمان سے اعداد و شمار کے فرق پر وضاحت مانگی گئی تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہ خاموشی حکومت کی ذمے داری پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ صحت کے اداروں کو چاہیے کہ وہ شفاف رپورٹنگ کے ذریعے عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں، کیونکہ اعداد و شمار چھپانے سے بحران کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھتا ہے۔ ماہرین صحت نے ڈینگی، ملیریا اور فلو سے بچاؤ کے لیے وہی احتیاطی تدابیر اپنانے کا مشورہ دیا ہے جو کورونا کے دوران نافذ کی گئی تھیں ہاتھ بار بار دھونا، ماسک کا استعمال، بیمار افراد سے فاصلہ رکھنا، اسکولوں، دفاتر اور اسپتالوں میں صفائی کے سخت اصول، ہجوم اور اجتماعات سے پرہیز، اور گھروں کے اندر و باہر پانی جمع نہ ہونے دینا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر بخار پانچ سے سات دن سے زیادہ برقرار رہے، یا سانس لینے میں دشواری، سینے یا گلے میں شدید درد محسوس ہو تو فوراً لیبارٹری ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ ڈینگی یا ملیریا کی تصدیق یا تردید ہو سکے. موسم کی تبدیلی کے ساتھ وائرل فلو اور زکام کے کیسز میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسپتالوں کی رپورٹس کے مطابق روزانہ ہزاروں مریض ان علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ “یہ تمام بیماریاں وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں، لہٰذا اینٹی بایوٹک ادویات (Antibiotics) فائدہ مند نہیں ہوتیں۔” بہتر علاج یہ ہے کہ مریض زیادہ پانی اور سوپ پیئے، آرام کرے، اور علامات کے مطابق علاج کروائے۔
سندھ کے کئی علاقوں میں سیوریج کا نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ گندا پانی، کوڑا کرکٹ اور بدبو دار جوہڑ نہ صرف ڈینگی بلکہ دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، ٹنڈو محمد خان اور کراچی کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں برسات کے بعد گندا پانی کئی دن تک کھڑا رہتا ہے۔ اس کے باوجود فومیگیشن مہمات صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہیں. موجودہ صورتحال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ سندھ کو ایک ہی وقت میں تین وائرسز کے خطرے کا سامنا ہے — ڈینگی، ملیریا اور وائرل فلو۔
ان تینوں کی ابتدائی علامات ایک جیسی ہیں، اس لیے غلط تشخیص کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درست تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ لازمی ہے۔
ماہرین صحت کا اتفاق ہے کہ اگر حکومت اور بلدیاتی ادارے سنجیدگی سے اقدامات کریں تو ڈینگی اور ملیریا جیسے امراض کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فومیگیشن مہمات منظم اور مؤثر بنائی جائیں، بارش کے بعد پانی کی فوری نکاسی کو یقینی بنایا جائے، اسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹنگ اور علاج کی سہولیات بڑھائی جائیں، اسکولوں اور کالجوں میں آگاہی مہمات چلائی جائیں، اور میڈیا کے ذریعے عوام کو روزانہ کی بنیاد پر صورتحال سے باخبر رکھا جائے۔
سندھ میں ڈینگی، ملیریا اور دیگر وائرسز کی بڑھتی لہر صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی ناکامی کی علامت بن چکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار اور زمینی حقیقت میں فرق نہ صرف عوام کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ صحت کے نظام کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو آنے والے ہفتوں میں یہ صورتحال ایک بڑی وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
0 تبصرے