مصنوعی ذہانت: ایک علمی انقلاب رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کے زیر اہتمام آرٹس کونسل کراچی میں نشست کا انعقاد

نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت اور مستقبل کی بصیرت کے بنیادی ہنر سکھائے جائیں، ڈاکٹر شمس حامد

مصنوعی ذہانت: ایک علمی انقلاب رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کے زیر اہتمام  آرٹس کونسل کراچی  میں نشست کا انعقاد

کراچی(اسٹاف رپورٹر)دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اثر پذیری اب پاکستان کے سماجی اور تعلیمی منظرنامے کے لیے بھی ایک فوری چیلنج بن چکی ہے۔ انہی موضوعات پر گفتگو کے لیے رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کے ایک سو پینتیسویں اجلاس کا انعقاد جوش ملیح آبادی لائبریری آرٹس کونسل آف پاکستان میں کیا گیا، جس میں اساتذہ، ادیبوں اور طلبہ کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔ اجلاس کا عنوان تھا: “مصنوعی ذہانت: ایک علمی انقلاب”۔مکالمے میں پروفیسر ڈاکٹر شمس حامد، فلسفی، فیوچرسٹ، شاعر اور ہم آر آئی (HUMRI) کے بانی ڈائریکٹرنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تقریباً چونسٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس لیے لازم ہے کہ انہیں مصنوعی ذہانت اور مستقبل کی بصیرت کے بنیادی ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ آنے والے زمانے کے معمار بن سکیں محض صارف نہیں۔ ڈاکٹر شمس نے کہا کہ بزرگ شہریوں کو بھی یہ علم حاصل کرنا ہوگا تاکہ وہ نئی نسل کی درست رہنمائی کر سکیں۔ڈاکٹر شمس حامد نے ریلیشنل انٹیلی جنس کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مصنوعی ذہانت کو انسان کی تخلیقی قوت کا متبادل نہیں بلکہ شریکِ کار سمجھنا چاہیے۔ ان کے مطابق، "یہ ٹیکنالوجی اکیلے کچھ نہیں کر سکتی، اسے انسانی تخیل، اقدار اور بصیرت کی ضرورت ہے۔ انسان اور مشین مل کر ایسے حل تلاش کر سکتے ہیں جو دونوں میں سے کوئی بھی اکیلا نہ کر پائے“۔انہوں نے عالمی اعداد و شمار بھی پیش کیے جن کے مطابق مصنوعی ذہانت کے اپنانے سے پیداوار میں بیس سے تیس فیصد اضافہ اور بعض شعبوں میں چالیس سے پچاس فیصد تک بچت ممکن ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ فائدے اسی وقت معاشرے کو بدل سکتے ہیں جب ان کا رخ محروم طبقات اور مقامی زبانوں کی طرف ہو، تاکہ علم صرف خواص تک محدود نہ رہے۔اقراءیونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، فیوچرسٹ ڈاکٹر سلمان احمد کھٹانی نے کہا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مستقبل کی بصیرت کو شامل کیا جائے تاکہ نوجوان آنے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکیں اور ان کی سمت طے کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی معاشروں میں مصنوعی ذہانت تعلیم میں ایڈاپٹو لرننگ، صحت میں تشخیص، کاروبار میں عمل کاری، اور شہروں میں بہتر حکمرانی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق بصیرت کے بغیر یہ ٹیکنالوجی معاشرتی فاصلے بڑھا سکتی ہے، لیکن درست رہنمائی کے ساتھ یہ معاشرے کو ترقی بھی دے سکتی ہے۔اس نشست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مصنوعی ذہانت کی اصل کامیابی صرف اقتصادی منافع میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ یہ کس طرح اعتماد، ہمدردی اور انسانی وقار کو مضبوط بناتی ہے۔ مقررین نے کہا کہ ادب، ثقافت اور شاعری ٹیکنالوجی کو انسانی اقدار سے جوڑنے کے لیے ہمیشہ ضروری رہیں گے۔نظامت کے فرائض بانی رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے ڈاکٹر تنویر انجم نے کی اور شرکاءسے اظہار تشکر بھی کیا۔