سندھ کو وفاق کی کالونی نہ سمجھا جائے، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے غیرآباد زمینیں دی جا رہی ہیں: وزیر اعلیٰ سندھ

سندھ کو وفاق کی کالونی نہ سمجھا جائے، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے غیرآباد زمینیں دی جا رہی ہیں: وزیر اعلیٰ سندھ

کراچی؛ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کو وفاق کی کالونی سمجھنے کی سوچ ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سندھ حکومت صرف وہ زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دے رہی ہے جو غیرآباد ہیں اور جہاں پانی موجود نہیں۔ بجٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت سولر پینلز پر عائد 18 فیصد ٹیکس واپس نہیں لیتی تو پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی جے اور ٹی پی کینالز کو کھولنے کا وقت 1991 کے پانی معاہدے کے تحت طے کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اس جارحیت کے خلاف فوری طور پر قرارداد منظور کروائی گئی۔ انہوں نے اپوزیشن کے شور شرابے پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اپوزیشن نے مذمت کی قرارداد کی مخالفت کیوں کی۔ وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ این ایف سی سے سندھ کا 105 ارب روپے کا حصہ روک لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ اطلاع بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک دن پہلے دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک سندھ کو وفاقی فنڈز سے 1478.5 ارب روپے ملے ہیں، جبکہ 422.3 ارب روپے واجب الادا ہیں، جن کی ادائیگی اسی ماہ متوقع ہے۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ سندھ کے ساتھ این ایف سی اور دیگر منصوبوں میں انصاف نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا: "سندھ کو وفاق کی کالونی نہ سمجھا جائے۔" بجٹ کی اہم جھلکیاں درج ذیل ہیں: تعلیم کے شعبے کے لیے 18 فیصد اضافہ صحت کے شعبے کے لیے 11 فیصد اضافہ کراچی کے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے 236 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت جاری منصوبے بھی شامل ہیں کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا گیا، بلکہ کئی ٹیکسز ختم یا کم کیے گئے ہیں (تفریحی ٹیکس مکمل ختم، ریسٹورنٹ ٹیکس میں کمی) مراد علی شاہ نے بتایا کہ زمینوں کا ریکارڈ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل کیا جا رہا ہے تاکہ عوام کو آسانی سے رسائی حاصل ہو۔ چھوٹے زمینداروں کو مفت لیزر لیولر دیے جائیں گے اور بڑے زمینداروں کو سبسڈی دی جائے گی۔ کلَسٹر فارمنگ ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم اقدامات کے تحت 34 ہزار نئے کاسٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، ہیڈ ماسٹرز کو انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ دیا جائے گا، اور سندھ ہاری کارڈ پروگرام کے تحت کسانوں کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کے فور واٹر پروجیکٹ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کام ہے کہ وہ کینجھر جھیل سے پانی فراہم کرے، جبکہ سندھ حکومت اس پانی کی تقسیم کی ذمہ دار ہے، جس کے لیے بجٹ میں فنڈز رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 1 سے 4 کی 25 ہزار تک نوکریاں خالی ہیں، جنہیں جلد پر کیا جائے گا، گریڈ 5 سے 7 کی بھرتیاں IBA ٹیسٹ کے ذریعے ہوں گی، جبکہ گریڈ 16 سے اوپر کی اسامیوں پر بھی بھرتی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے صرف 18 پی ڈبلیو ڈی منصوبے سندھ کو دینے پر بھی اعتراض کیا اور اسے واضح ناانصافی قرار دیا۔ یونیورسٹی فنڈنگ میں بھی 4 ارب روپے سے کٹوتی کر کے صرف 2 ارب روپے کر دیے گئے ہیں، جس پر احتجاج جاری ہے۔ سکھر-حیدرآباد موٹروے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس اہم منصوبے کے لیے وفاقی حکومت نے فنڈز 30 ارب روپے سے کم کر کے صرف 15 ارب روپے کر دیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے دفتر کے لیے ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہیلی کاپٹر 36 سال پرانا ہے اور گاڑیاں بھی کئی سالوں سے اپڈیٹ نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے میں کارپوریٹ فارمنگ کی طرف بڑھا جا رہا ہے، لیکن اس میں مقامی کسانوں کے نیٹ ورک کو شامل کر کے شفاف شراکت داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک بڑے ڈیموں کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی، اگر کی گئی تو تب دیکھا جائے گا۔ مراد علی شاہ نے تسلیم کیا کہ صوبے میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سرکاری اخراجات پر لگائی گئی پابندیاں ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی دباؤ یا بلیک میلنگ، چاہے وہ پی ٹی آئی سے ہو یا ایم کیو ایم سے، کو خاطر میں نہیں لائے گی۔ کارپوریٹ فارمنگ کے تحت زمینوں کی نیلامی سے متعلق سوال پر انہوں نے وضاحت کی کہ: "ہم صرف وہ زمینیں دے رہے ہیں جو غیر آباد ہیں اور جہاں پانی دستیاب نہیں۔"