ایس آر او 1735 واپس لیا جائے، کنسائنمنٹ کو پی ٹی اے کی سفارشات کے بغیر کلیئر نہ کیا جائے،محمدالطاف کی پریس کانفرنس
کراچی؛ فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی)کے نائب صدرامان پراچہ اور چیئرمین پاکستان ٹی ایسوسی ایشن(پی ٹی اے) محمدالطاف نے حکومت کی جانب سے عائد کردہ میکسیمم ریٹیل پرائس(ایم آر پی) عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ امان پراچہ اور چیئرمین پاکستان ٹی ایسوسی ایشن محمدالطاف نے ایس آر او 1735 واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس سے قومی خزانے کو رواں مالی سال کے پہلے9ماہ میں 40 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے، نومبر 2024 میں حکومت کی جانب سے چائے پر 1,200 روپے فی کلوگرام ایم آر پی نافذ کرنے کے فیصلے نے چائے کے شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اگر ایم آر پی کاخاتمہ کردیا جائے تو چائے کی قیمت میں 200روپے سے300روپے تک کی کمی ہوسکتی ہے۔منگل کو فیڈریشن ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امان پراچہ نے کہا کہ پانی کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال چائے کا کیا جاتا ہے اس لئے چائے کو فوڈ آئٹمز میں شامل کیا جائے،ا سوقت چائے کی تجارت زبوں حالی کا شکار ہے اور اس ٹریڈ کو سب سے زیادہ اسمگلنگ نے متاثر کیا ہے،اگرچہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی کوششوں سے اسمگلنگ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے لیکن فاٹا اور پاٹا کے نام پر ہونیو الی قانونی اسمگلنگ نے چائے کی تجارت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ چائے کی درآمدات میں 17.5 فیصد کمی ہوئی ہے، جس کی بڑی وجہ فاٹا/پاٹا کے لیے دی گئی ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال ہے، پاکستان میں سالانہ چائے کا استعمال تقریباً 3لاکھ ٹن ہے، جبکہ گزشتہ نو ماہ میں صرف 154,000 ٹن چائے درآمد کی گئی، جو کہ پچھلے سال اسی عرصے کے دوران 190,000 ٹن تھی۔چیئرمین پی ٹی اے نے الزام عائد کیاکہ فیصل آباد اور سرگودھا ڈرائی پورٹس پر بین الاقوامی چائے قیمت (آئی ٹی پی) سے مشاورت کے بغیر مصنوعی طور پر کم قیمتوں پر چائے کے کنسائمنٹس کلیئرکئے جارہے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی کنسائنمنٹ کو پی ٹی اے کی آئی ٹی پی سفارشات کے بغیر کلیئر نہ کیا جائے اور زور دیا کہ پی ٹی اے کے ممبران اس وقت تقریباً 70 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے پی ٹی اے کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہفاٹا اورپاٹا کا درآمدی کوٹہ، خشک بندرگاہ کی سہولتیں اور دوبارہ برآمدات کا طریقہ کار چائے کے شعبے میں غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے تمام استثنات کے خاتمے اور یکساں ٹیکس نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا اورکہا کہ چھوٹے چائے تاجروں کے لیے غیر منصفانہ مارکیٹ حالات میں مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ٹیکسیشن میں نمایاں فرق موجود ہے۔امان پراچہ نے کہا 800 تا900 روپے فی کلو درآمد کی گئی چائے پر 1,200 روپے فی کلو کے حساب سے ٹیکس لیا جا رہا ہے،ہمارامطالبہ ہے کہ 1,200 روپے فی کلوگرام ایم آر پی واپس لی جائے تاکہ چائے کی قیمت میں کمی آ سکے۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ چائے کو تیار شدہ مصنوعہ کے بجائے خوراک کی اشیاء اور خام مال کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ مکسنگ، پروسیسنگ اور پیکنگ کے مراحل سے گزرتی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ تقریباً 71,000 ٹن چائے پہلے ہی مختلف رعایتوں اور سہولیات کے تحت درآمد کی جا چکی ہے،چائے کے درآمد کنندگان کے ساتھ یہ ناانصافی اور ظلم بند ہونا چاہیے۔ امان پراچہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اچھے معیار اور عوام الناس کے لیے چائے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے چائے کے تاجروں کو چائے کی قیمتوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے۔
0 تبصرے