چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور مریم نواز نے جنوبی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے چولستان منصوبے کا افتتاح کیا تھا
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے خلاف قرار داد جمع کرادی۔آج پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی زرتاج گل، علی محمد خان اور محمد احمد چٹھہ نے اسپیکر ایاز صادق کو نہروں کے منصوبے کے خلاف قرارداد جمع کرائی۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے 15 فروری کو جنوبی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے چولستان منصوبے کا افتتاح کیا تھا جس پر عوامی سطح پر غم و غصہ اور سندھ میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں 1.2 ملین ایکڑ ’ بنجر زمین’ کو سیراب کرنے کے لیے چھ نہروں کی تعمیر کے لیے شروع کیے گئے متنازعہ 3.3 ارب ڈالر کے گرین پاکستان انیشیٹو (جی پی آئی) کی سندھ میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی سخت مخالفت کی ہے۔پی ٹی آئی کی قرارداد، جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے، میں مطالبہ کیا گیا کہ ’ چولستان کینال منصوبے کی تعمیر’ کو فوری طور پر معطل کیا جائے جب تک کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اس کی منظوری نہ دے دے۔قرارداد میں کہا گیا کہ منصوبے کے لیے سی سی آئی کی منظوری ’ بین الصوبائی ہم آہنگی اور آئینی اصولوں کی تعمیل کو یقینی بنانے’ کے لیے ضروری ہے۔
آئین کے آرٹیکل 154 (سی سی آئی کے افعال اور قواعد و ضوابط) کا حوالہ دیتے ہوئے، پی ٹی آئی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جی پی آئی کے تحت منصوبے سے متعلق سندھ کے تحفظات پر غور کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے 15 دنوں کے اندر کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائے اور اس بات کو یقینی بنایا بنایا جائے کہ اجلاس میں تمام صوبائی اسٹیک ہولڈرز کی سنی جائے۔
قرارداد میں دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چولستان نہری منصوبے کے لیے جاری کردہ پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کا ایک آزاد آڈٹ کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں کہا گیا کہ آڈٹ 60 دنوں کے اندر ہائیڈرولوجسٹ اور ماحولیاتی ماہرین کے ایک ’ غیر جانبدار پینل’ کے ذریعے کرایا جانا چاہیے، اور نتائج اس ایوان کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ 1991 کے آبی تقسیم کے معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کی جا سکے، اور سندھ کے پانی کے حصے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
پیر کو، سندھ ہائی کورٹ نے ارسا اور دیگر کو نہروں کی مجوزہ تعمیر پر کوئی بھی مزید کارروائی کرنے سے روک دیا تھا، جس کی بنیاد اتھارٹی میں ایک نامناسب تقرری کا مسئلہ تھا۔
قرارداد میں لکھا ہے، ’ دریائے سندھ کے نظام پر تمام نئے نہری منصوبوں پر اس وقت تک پابندی عائد کی جائے جب تک کہ 1991 کے آبی تقسیم کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو جائے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سندھ کا مختص کردہ حصہ 48.76 ملین ایکڑ فٹ اور زیریں علاقوں کے صوبوں کے نچلے درجے کے حقوق محفوظ رہیں، جس میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو برقرار رکھنے کے لیے کوٹری بیراج سے نیچے کم از کم 10 ملین ایکڑ فٹ کا ماحولیاتی بہاؤ شامل ہے۔
قرارداد میں مزید زور دیا گیا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکام ’ زیریں علاقوں کے اسٹیک ہولڈرز’ بشمول سندھ کے منتخب نمائندوں، کسانوں اور سول سوسائٹی، کے ساتھ لازمی، شفاف مشاورت کو یقینی بنائیں گے، جس میں سی سی آئی کے کسی بھی فیصلے سے پہلے عوامی سماعتوں کو دستاویزی شکل دی جائے اور قابل رسائی بنایا جائے۔پی ٹی آئی کی قرارداد میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ سندھ زراعت، گھریلو استعمال اور ماحولیاتی پائیداری کے لیے پانی کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے۔
قرارداد میں مزیدکہا گیا کہ پنجاب میں نہروں کی تعمیر، بشمول جی پی آئی کے تحت شروع کیے گئے چولستان نہر کے منصوبے، نے سندھ میں اس کے پانی کے حصے میں ممکنہ کمی اور زیریں علاقوں کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے اہم خدشات پیدا کیے ہیں۔
پی ٹی آئی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آئین کے آرٹیکل 153 (سی سی آئی)، 154 (افعال اور قواعد) اور 155 (پانی کی فراہمی میں مداخلت کے حوالے سے شکایات) ’ وفاقی اکائیوں کے درمیان قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو لازمی قرار دیتے ہیں اور سی سی آئی کو پانی پر بین الصوبائی تنازعات کو حل کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔’
قرارداد میں مزید کہا گیا،’ سندھ کے تحفظات، جو جولائی 2024 میں سی سی آئی کے ساتھ باضابطہ طور پر درج کیے گئے تھے، اس طرح کے منصوبوں سے قبل شفافیت، سائنسی تشخیص اور بین الصوبائی اتفاق رائے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔’
اس مہینے کے اوائل میں، پی ٹی آئی نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ مل کر مجوزہ نہروں کے خلاف دھرنا اور ریلی نکالی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ کراچی کو پانی کی فراہمی میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گا۔
0 تبصرے