انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف
اسلام آباد: پاکستان میں کل سگریٹ مارکیٹ میں سے 54 فیصد سگریٹ غیر قانونی طور پر فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ413 سگریٹ برانڈز میں سے صرف 19 برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس سٹیمپ موجود پائ گئ ہے۔ اس بات کا انکشاف گزشتہ روز انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ کی سگریٹ انڈسٹری میں ٹریک اینڈ ٹریس نظام پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ۔رپورٹ کے مطابق ملک کے 19 اضلاع میں سیگریٹ انڈسٹری پر نافذ العمل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عملدرآمد کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ۔ رپورٹ سروے میں کل 413 سگریٹ برانڈز کی نشاندھی کی گئی جنکا ایف بی آر کے سسٹم میں اندراج تک موجود نہی ہے۔ رپورٹ کی لانچنگ کے موقع پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر IPOR طارق جنید نے کہا کہ ملک کے 19 اضلاع کے 1,520 ریٹیل آٹ لیٹس کا سروے کیا گیا اس دوران 413 سے زائد سگریٹ برانڈز کی شناخت کی گئی اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان 413 سگریٹ برانڈز میں سے صرف 19 برانڈز مکمل طور پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (TTS) کی تعمیل کر رہے تھے، 13 جزوی طور پر جبکہ صرف 95 سگریٹ برانڈز پر حکومت پاکستان کی مجوزہ تصویری ہیلتھ وارننگ موجود تھی۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گی کہ فروخت ہونے والے 286 سگریٹ برانڈز پر نہ تو ٹیکس اسٹیمپ موجود تھی اور نہ ہی حکومت پاکستان کی منظور کردہ تصویری ہیلتھ وارننگ شایع کی گئ تھی ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں 2009 میں تصویری ہیلتھ وارننگ کا نفاذ لازمی قرار دیا گیا تھا، مگر 16 سال بعد بھی مارکیٹوں میں بغیر منظور کردہ تصویری ہیلتھ وارننگ کے سگریٹ پیکٹ سرعام فروخت ہو رہے ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 54% سگریٹ برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت ٹیکس سٹیمپ نہیں لگای جا رہی ہے، جن میں سے 45 فیصد اسمگل شدہ برانڈز اور 55 فیصد مقامی طور پر تیار شدہ، ڈیوٹی نہ ادا کیے گئے سگریٹ برانڈز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، 332 سگریٹ برانڈز حکومت پاکستان کی طے کردہ کم از کم قیمت 162.25 روپے سے کم پر فروخت ہو رہے تھے، جن میں بعض صرف 40 روپے میں فروخت کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کے نتیجے میں حکومت کو محصولات میں اربوں روپے کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ کی لانچنگ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر IPOR کے طارق جنید نے مزید کہا کہ سمگل اور ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے سیگریٹوں کی وجہ سے ملکی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اگر سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری کی طرف توجہ دے تو پاکستان کو باہر سے قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے ۔انہوں نے کہا کہ غیر تعمیل اور اسمگل شدہ سگریٹس کی زیادہ مقدار حکومت کو ضروری محصولات سے محروم کر رہی ہے۔ اس صورتحال کا فوری طور پر حل نکالنا ضروری ہے تاکہ محصولات کے نقصان کو روکا جا سکے۔ رپورٹ یہ بات بھی سامنے آئی کہ دیہی علاقوں میں بغیر ٹیکس سٹیمپ کی شرح 58 فیصد جبکہ شہری علاقوں 49 فیصد سے زیادہ ہے۔
0 تبصرے