کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ میں پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے خلاف دائر آئینی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ آئندہ سماعت کی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے گی۔پیکا ایکٹ کے خلاف دائر آئینی درخواست بلوچستان یونین آف جرنلسٹس(بی یو جے)، بلوچستان بار کونسل اور انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس عبداللہ بلوچ اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست کی ابتدائی سماعت کی۔دوران سماعت عدالت عالیہ نے درخواست گزاروں کے دلائل سننے کے بعد آئینی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا اور وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے مزید سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی۔درخواست گزاروں کا مقف ہے کہ پیکا ایکٹ آزادی اظہارِ رائے اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، جو صحافیوں اور عام شہریوں کی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین راحب خان بلیدی، بی یو جے کے صدر خلیل احمد اور دیگر صحافیوں نے سماعت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ کے تحت آزادی صحافت اور عوامی رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے، جو آئینِ پاکستان کی روح کے خلاف ہے۔بلوچستان بار کونسل اور بی یو جے کے رہنماں نے کہا کہ وہ آزادی اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے ہر قانونی فورم پر آواز بلند کریں گے۔ ان کے مطابق پیکا ایکٹ کا غلط استعمال کرکے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ناقابلِ قبول ہے۔درخواست گزاروں نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس معاملے میں انصاف فراہم کرے گی اور پیکا ایکٹ کے تحت ہونے والی زیادتیوں کو روکے گی۔ کیس کی آئندہ سماعت میں وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کے جوابات متوقع ہیں، جن کی روشنی میں عدالت آئندہ لائحہ عمل طے کرے گی۔پیکا ایکٹ کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر صحافتی اور قانونی حلقوں کی جانب سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور اس کیس کے فیصلے کو آزادی اظہار کی جنگ میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
0 تبصرے