جنسی گھٹن کا شکار شخص ایک طرح سے جنسی درندہ بن جاتا ہے، ایسا شخص جنسی تہذیب و تمیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اسے اپنی جنسی ہوس مٹانے کے لیے ”سوراخ“ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ڈولفن آیان پشاور کا رہائشی ”ٹرانس جینڈر“ ایک خواجہ سرا ہے، خاصا با تہذیب اور پڑھا لکھا انسان ہے، کسی جنسی درندے یا ”پیپنگ ٹام“ نے اس کے سر پر پستول رکھ کر کپڑے اتارنے کو کہا اور اس کے ننگے جسم سے لطف اندوزی کے بعد وڈیو بنا ڈالی۔
میرے خیال میں تو کپڑے اس کے نہیں اترے بلکہ یہ منافق سماج ننگا ہوا ہے، جی ہاں یہ وہی منافق سماج ہے جس کے متعلق لکی مروت کی پلوشہ نے ڈاکٹر نائیک کے سامنے سوال کی صورت میں ایک نوحہ پڑھا تھا لیکن اس کے سنجیدہ سے سوال کو مذاق کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پلوشہ نے یہی تو پوچھا تھا نا کہ ہمارے معاشرے میں عبادت گزار تو بہت ہیں، چلے پر بھی جاتے ہیں، حج اور عمرہ کے علاوہ صوم و صلوٰۃ کے بھی پابند ہیں لیکن پیڈوفائل ہیں اور زنا کاریاں کرتے ہیں۔ آ خر کیا وجہ ہے کہ یہ دین مقدس جو پاکیزگی کا ضامن ہے ان کی اپنی روحوں میں کیوں نہیں اتر پایا ہے؟ لیکن سوال کا گلا گھونٹ دیا گیا۔گزشتہ دنوں کسی دوست نے اس المناک واقعے کی تفصیل اپنی فیس بک وال پر شیئر کی، دل مٹھی میں آ گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نیچے کمنٹس میں لوگ اس وڈیو کا لنک مانگ رہے تھے۔شنید ہے کہ جس بدبخت نے یہ وڈیو بنائی تھی اس نے شیئر کردی اور عوام ایک دوسرے کو وڈیو شیئرنگ کر کے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں۔
اس سے پہلے بھی ڈولفن پر کئی حملے ہو چکے ہیں، بلکہ خواجہ سراؤں کے لیے پشاور کی فضا موزوں نہیں ہے۔ گھٹن کی وجہ سے جنسی تجربیت ایسی قباحتیں ہر اس سماج کا خاصا بن جاتی ہیں جہاں جنسی اسکولنگ کا بندوبست نہیں ہوتا اور جنس ایسے حساس موضوع پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جب حساس موضوعات کو شجر ممنوعہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو پھر معصوم بچے بچیاں بھی جنسی درندوں سے محفوظ نہیں رہتیں۔معصوم بچے مدارس میں محفوظ نہیں ہیں، سوشل میڈیا ایسے باریش کرداروں سے بھرا پڑا ہے جو قادر مطلق کی عظیم کتاب پڑھاتے وقت اپنی شلوار کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور معصوم بچوں سے جلق کرواتے ہیں یا جھولی میں بٹھا لیتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ خدا کے یہ مقدس نمائندے جن کے ہاتھوں میں قادر مطلق کی یاد دہان ”تسبیح“ اور سینہ کلام پاک کے 30 پاروں سے منور ہوتا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ ان میں شیطان مردود کا ظہور کیسے ہو جاتا ہے۔یہ بامنور ہستیاں بھلا کیسے اس قدر بہک جاتی ہیں کہ اپنے ازدواجی دائرے سے باہر نکل کر معصوم بچے بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں؟گزشتہ دنوں ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک قاری صاحب جنہوں نے اپنی داڑھی مبارک کو سرخ مہندی سے مہکا رکھا تھا ایک بچی کو اپنی ٹانگوں کے بیچ لے کر جنسی اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔
یہ کیسی جنسی کھجلی ہے جو ایک متقی و پرہیز گار کو بھی جنسی تمیز سے بے نیاز کر دیتی ہے؟حریمِ شاہ کا ایک وڈیو کلپ یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ انکشاف کر رہی ہیں”یہ سماج اس قدر رذیل ہو چکا ہے کہ یہاں کے پیڈوفائل جانوروں تک کو نہیں چھوڑتے، خواجہ سرا بھی ان کی پہنچ سے محفوظ نہیں ہیں“
خواجہ سراؤں کے ساتھ اس سماج میں بہت برا سلوک کیا جاتا ہے، منافقت کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک ڈولفن کے ساتھ ساتھ جو سفاکی ہوئی ہے اس کے متعلق کسی نے کوئی بات نہیں کی، تمام کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں خاموش ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ سرا قادر مطلق کی مخلوق نہیں ہیں؟
کیا یہ انسان نہیں ہیں؟ ان کو گھر سے دھتکارا جاتا ہے اور باقی کی زندگی سماج میں رلتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
ان کو چھکا، چھلکا اور نجانے کیسے کیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹرانس جینڈر ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟
ان کو انٹرٹینمنٹ آبجیکٹ کی نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟
0 تبصرے