ماہرین کا ماحولیاتی رپورٹنگ میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے والی خواتین صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور شمولیت پر زور

ماہرین کا ماحولیاتی رپورٹنگ میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے والی خواتین صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور شمولیت پر زور

ماہرین کا ماحولیاتی رپورٹنگ میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے والی خواتین صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور شمولیت پر زور

اسلام آباد،- عالمی سطح پر ماحولیاتی بحران میں اضافے پر عوامی آگاہی کے لئے میڈیا کا اہم کردار ہے، پاکستان میں خواتین صحافی تیزی سے ماحولیاتی رپورٹنگ میں شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں، تاہم انہیں سنگین چیلنجز کا سامنا ہے. ان صحافیوں کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کے لیے گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشن نے امریکی محکمہ خارجہ کے تعاون سے اسلام آباد میں سبز جرنلزم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اسلام آباد ہوٹل میں منعقد ہونے والی اس تقریب کا مقصد ماحولیاتی صحافت میں خواتین کے اہم کردار پر روشنی ڈالنا اور صنفی بنیادوں پر مخصوص رکاوٹوں سے نمٹنا ہے۔

جی این ایم آئی کے ڈائریکٹر پروگرامز حسنین رضا نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور اہمیت پر زور دیتے ہوئے کانفرنس کا آغاز کیا۔ انہوں نے پاکستان کے ماحولیاتی صحافت کے منظرنامے میں خواتین صحافیوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں کانفرنس کے اہم کردار کو وضع کیا۔ انہوں نے ایک ملٹی میڈیا پریزنٹیشن بھی پیش کی جس میں سبز جرنلزم فیلوشپ پروگرام کے اقدامات کو دکھایا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو ماحولیاتی مسائل پر زیادہ ریسرچ اور تحقیق کے ساتھ رپورٹنگ کرنے کے لئے بااختیار بنانا ہے۔ اس سیشن میں موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹنگ میں خواتین صحافیوں کی جانب سے کی گئی اسٹوریز بھی دکھائی گئیں، جن میں ان کی خدمات اور ملک میں زیادہ جامع اور صنفی طور پر حساس ماحولیاتی صحافت کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا گیا ۔

پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے مشیر علی توقیر شیخ نے ماحولیاتی صحافت میں خواتین کے اہم کردار پر روشنی ڈالی، خاص کر 2022 کے سیلاب کے تناظر میں جس میں 20-30 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، 'خواتین صحافی نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی کی اسٹوریز بیان کر رہی ہیں۔ بلکہ وہ ایسے بیانیہ کو تشکیل دے رہی ہیں جو ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ انہوں نے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح خواتین صحافیوں نے میڈیا کے منظر نامے سے غائب کہانیوں کو منظر عام پر لانے کا کام کیا ۔ انہوں نے خواتین کی آواز کو موثر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں جہاں ماحولیاتی تنزلی صنفی تشدد اور شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ منسلک ہے، ایسے مسائل جو اکثر کم رپورٹ کیے جاتے ہیں، خواتین کا کردار موسمیاتی تبدیلی کے مکمل اثرات کو سمجھنے کے لئے اہم ہیں۔

کانفرنس میں پینل ڈسکشن کا بھی حصہ رکھا گیا جس کی نظامت سینئر براڈکاسٹ جرنلسٹ عروج رضا سیامی نے کی ۔سیشن میں پاکستان کے میڈیا کے منظرنامے میں ماحولیاتی صحافت کی نمایاں کم نمائندگی اور اس شعبے میں صنفی تفاوت پر روشنی ڈالی گئی۔ انڈپینڈنٹ اردو کے منیجنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے ماحولیاتی مسائل کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ابھرتے ہوئے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے کیریئر کے آغاز سے ہی اس شعبے پر توجہ دیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ درست کوریج کے لئے فیلڈ رپورٹنگ انتہائی اہم ہے، خاص طور پر خواتین صحافیوں کے لئے جو اکثر اس سلسلے میں زیادہ عزم کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ انہوں نے مین اسٹریم میڈیا پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی مسائل پر وہ توجہ دیں۔

غیر سرکاری تنظیم پوڈا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمینہ نذیر اور نیوز ون میں پروگرام اینکر نیئر علی نے خواتین صحافیوں کو موجودہ نظام میں درپیش رکاوٹوں پر روشنی ڈالی، خصوصا دیہی علاقوں میں ۔ محترمہ ثمینہ نے فیلڈ رپورٹنگ میں اپنی جدوجہد کو بیان کیا اور میڈیا کی غلط ترجیحات پر تنقید کی جو اکثر مذہبی شخصیات کے دباؤ میں خواتین کی آواز کو دبا دیا کرتی ہیں۔ نیئر علی نے خواتین رپورٹرز کی شدید کم تنخواہوں اور انہیں ملنے والی سپورٹ میں کمی پر روشنی ڈالی۔ خاص طور پر جب سنگین جرائم جیسے سخت واقعات کی رپورٹنگ کا وقت آتا ہے خواتین صحافیوں کو کنارے لگا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی صحافت میں صنفی نظر کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کو اس کی عدم کارکردگی افسوس کا اظہار کیا ۔ دونوں پینلسٹس نے اس شعبے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے تکنیکی تربیت اور پالیسی کے نفاذ کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ ترک خبر رساں ادارہ ینی شفق اردو کے منیجنگ ایڈیٹر حنین امین نے سرمایہ داری، صنف اور ماحولیاتی خدشات کو ہر اسٹوری میں ضم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور صحافیوں پر زور دیا کہ وہ ان اہم مسائل کی گہرائی میں جائیں۔

اسلام آباد کے معروف میڈیا ہاؤسز بشمول ایسوسی ایٹ پریس پاکستان (اے پی پی)، پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی)، ڈان نیوز، سماء ٹی وی، ہم نیوز، انڈپینڈنٹ اردو، جی این این، 92 نیوز، اے آئی کے نیوز، پبلک ٹی وی، ینی شفق اردو کے علاوہ مختلف پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس نے تقریب میں شرکت کی۔

کانفرنس ایک نیٹ ورکنگ سیشن کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ، جس میں شرکاء کو پینلسٹس اور ماہرین کے ساتھ براہ راست گفتگو کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس سیشن میں میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے درمیان مشترکہ کوششوں کے امکانات پر سنجیدہ گفتگو کیلئے سہولت فراہم کی گئی ، جس میں ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی اور ایڈوکسی کو بڑھانے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز رہی ۔

سبز جرنلزم فیلوشپ پروگرام کا مقصد صحافیوں کو ماحولیاتی مسائل پر مؤثر انداز میں رپورٹنگ کرنے، عوام میں آگاہی اور تفہیم کو فروغ دینا ہے، اس پروگرام کا مقصد ڈیٹا پر مبنی تحقیقاتی رپورٹنگ کو فروغ دینا اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر آب و ہوا پر مبنی رپورٹس کو پھیلانا ہے۔

جی این ایم آئی ایک رجسٹرڈ میڈیا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ہے جو میڈیا اور ٹکنالوجی کے جدید استعمال سماجی تبدیلیوں کے لئے کوشاں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے تعاون سے سبز جرنلزم فیلوشپ پروگرام پاکستان میں ماحولیاتی رپورٹنگ کے معیار اور والیم کو بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے، جس سے بالآخر ماحولیاتی مسائل پر عوامی آگاہی اور بہتر طور پر فیصلہ سازی میں مدد ملے گی۔