ڈیجیٹل دور میں مس انفارمیشن کے مقابلہ کے لئے کے لئے ابلاغی خواندگی ضروری ہے: ڈی جی پبلک ریلیشن پی آئی ڈی ارم تنویر

ڈیجیٹل دور میں مس انفارمیشن کے مقابلہ کے لئے کے لئے ابلاغی خواندگی ضروری ہے: ڈی جی پبلک ریلیشن پی آئی ڈی ارم تنویر

ڈیجیٹل دور میں مس انفارمیشن کے مقابلہ کے لئے  کے لئے ابلاغی خواندگی ضروری ہے: ڈی جی پبلک ریلیشن پی آئی ڈی ارم تنویر

کراچی: معاشرے میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر میڈیا خواندگی کی ضروری ہے، سوشل میڈیا کے عروج نے عوام کو آزادانہ طور پر اپنی رائے کے اظہار کرنے کے قابل بنایا ہے، جس سے عوام کو میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے بارے میں آگاہی دینے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار جمعرات کو یہاں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئ ڈی) کے تعاون سے رابطہ فورم انٹرنیشنل (ار ایف آئ) کے دفتر میں منعقد ہونے والے "سماجی، اقتصادی اور اسٹرٹیجک استحکام میں میڈیا کا کردار" کے عنوان سے منعقدہ ایک سیشن سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیشن کے دوران پی آئی ڈی کی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن ارم تنویر نے کہا کہ پی آئی ڈی ملک بھر میں صحافیوں کے لیے تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔ انہوں نے جعلی خبروں کی نشاندہی اور انسداد کے لیے ایک سرکاری محکمے کے وجود پر روشنی ڈالی۔ ارم تنویر نے ذمہ دارانہ صحافت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے منفی خبروں کو اجاگر کرنے کے مین سٹریم میڈیا کے رجحان پربھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی حقیقت اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ماس میڈیا سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ ماس میڈیا کے پاس مواد کی تصدیق کے لیے ایک مکینزم موجود ہے جبکہ سوشل میڈیا میں ایسے میکنزم کا فقدان ہے، لہذا اس دور میں ابلاغی خواندگی ضروری ہے۔ انہوں نے پاکستانی پریس کی آزادی پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ آزاد ہے۔نجی یونیورسٹی کی میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ماہ درخشاں نے سوشل میڈیا کو ایٹمی طاقت سے زیادہ طاقتور قوت سے تشبیہ دی۔ انہوں نے میڈیا کی خواندگی کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسلیں روایتی خبروں کے ذرائع سے زیادہ سوشل میڈیا کی طرف مائل ہیں اور آن لائن شخصیات سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوانوں کو عالمی معلومات تک آسانی سے رسائی حاصل ہے لیکن مقامی معلومات کا علم نہیں ہے، نوجوانوں کو بامعنی گفتگو میں شامل کرنے کے لیے سیمینار اور ورکشاپس کرانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نوجوانوں کے ساتھ بہتر روابط اور معلومات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے طریقہ کار بنائیں۔ ایک غیر ملکی میڈیا ادارے کی نامہ نگار سدرہ اظہر ڈار نے ماس میڈیا پر تنقید کی کہ وہ اہم مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں جو اکثر سوشل میڈیا پر نمایاں ہوتے ہیں۔ آر ایف آئی کے چیئرمین نصرت مرزا اور پی آئی ڈی کے انفارمیشن آفیسر قاسم فاروق نے بھی بحث میں حصہ لیا، سماجی، اقتصادی اور اسٹرٹیجک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کی خواندگی میں اضافہ اور ذمہ دارانہ رابطے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔