برطانیہ میں ہیموفیلیا بی کے علاج کیلئے جین تھراپی کی سہولت
• جیمز گیلیگر
• عہدہ,بی بی سی نیوز
• 5 گھنٹے قبل
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے پاس اب ہیموفیلیا بی نامی بیماری سے لڑنے والی ایک جین تھراپی کی سہولت دستیاب ہے۔ ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا فرد کے خون میں ایسے پروٹینز کی کمی ہوتی ہے کہ جو خون کو جمنے میں مدد کرتے ہیں۔
ایلیٹ کولنز تجرباتی بنیادوں پر اس علاج کے آغاز سے اس کا حصہ رہے اور اُن پر پہلی مرتبہ تجربہ کیا گیا جس میں یہ ثابت ہوا کہ یہ علاج صحیح کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ’صحت مند محسوس کر رہے ہیں‘ اور جین تھراپی نے انھیں ’نئی زندگی‘ دی ہے۔ تاہم اسے دُنیا کا ’مہنگا ترین علاج‘ قرار دیا جا رہا ہے جس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی لاگت آتی ہے۔
جب انسانی جسم پر کوئی چوٹ لگتی ہے یا زخم آتا ہے تو جسم خودکار طریقے سے اسے محسوس کرنے کے بعد دماغ کو یہ پیغام بھیجتا ہے کہ جسم کے فلاں حصے سے خون بہہ رہا ہے جس کے بعد انسانی جسم خون کے بہاؤ میں جمنے والے پروٹین کو فعال کرتا ہے۔
انسانی خون میں موجود یہ پروٹین زخم کی جگہ پر خون میں چپچپاہٹ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس زخم کو خون کے جمنے سے بننے والے ایک لوتھڑے سے بند کر دینے میں مدد کرتے ہیں۔
لیکن پیدائش کے وقت سے ایلیٹ کے جسم میں موجود خون اسے جمانے والے ’فیکٹر 9‘ کو بنانے سے قاصر تھا۔
خون کے اندر اسے جمنے میں مدد کرنے والے اس عنصر کے بغیر اگر جسم پر کوئی زخم آ جائے تو خون جمتا نہیں اور بس بہتا رہتا ہے۔
ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے یہ اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اُن کے جوڑوں کے اندر بھی خون بہنے کا سبب بن سکتا ہے جس کی وجہ سے اکثر کہنی یا گھٹنے جیسے اہم جوڑوں میں یہ شدید نقصان کا باعث بنتا ہے۔
برطانیہ کے کولچیسٹر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ایلیٹ بچپن میں یہ جانتے ہوئے بھی رگبی یا سکیٹ بورڈنگ میں حصہ لیتے رہے کہ انھیں ہیموفیلیا ہے۔ لیکن انھیں فٹ بال کھیلتے ہوئے لگنے والی چھوٹی سی چوٹ بھی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
ایلیٹ کو 29 سال تک ہفتے میں دو بار فیکٹر 9 کے انجیکشن کی ضرورت پڑتی رہی اور اگر انھیں کوئی چوٹ لگ جاتی تو ان ٹیکوں کی تعداد زیادہ ہو جایی۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے ہر وقت اس کے بارے میں سوچنا پڑتا تھا۔‘
لیکن انھوں نے جین تھراپی کے تجربات میں حصہ لیا جب یہ 2019 میں ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔
اس کے بعد سے، انھیں کسی فیکٹر 9 انجیکشن کی ضرورت نہیں پڑی اور ان کا کہنا ہے کہ اس نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔
انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ آپ 29 سال تک اس طرح کی کسی چیز سے گزر سکتے ہیں‘ لیکن اب ’میں ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔‘
حال ہی میں جب اُن کا گھٹنا اچانک الماری کے ساتھ ٹکرا گیا تو اُنھیں علم ہوا کہ یہ علاج واقعی کام کر رہا ہے۔
انھوں نے اپنے گھٹنے کو زور سے دبایا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کہیں انھیں فیکٹر 9 انجیکشن کی ضرورت تو نہیں۔ لیکن انھوں نے دیکھا کہ جہاں انھیں چوٹ لگی وہاں صرف ایک چھوٹا سا نشان ظاہر ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے اُن کا یہ احساس اور یقین پختہ ہو گیا کہ یہ تھراپی حقیقی طور پر کام کر رہی ہے۔ ’اب میں پرسکون رہ کر زندگی گُزار سکتا ہوں۔‘
ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ ایلیٹ کے خون میں فیکٹر 9 کی سطح 60 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
0 تبصرے