کارگاہوں کو محفوظ اور صحت و سلامتی کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے
کراچی(پ ۔ ر )سانحہ بلدیہ سے سرمایہ داروں اور حکومت کے سبق نہ سیکھنے کی وجہ سے صنعتی حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو ا ہے۔ صحت و سلامتی سے متعلق ملکی و بین الاقوامی معیارت مجرمانہ حد تک نظر انداز کرنے کی وجہ سے کارگاہیں مزدوروں کے لیے مقتل بنی ہوئی ہیں ۔
علی انٹرپرائز جیسےسانحات سے بچنے کے لیے کام کی جگہوںکو محفوظ بنانے کے لیے ملک گیر پالیسی اور قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار سانحہ بلدیہ کی گیارویں برسی کے مواقع پر متاثرہ فیکٹری پر منعقد یادگاری مزدور اجتماع سے مزدور رہنماوں نے کیا۔
آج سے گیارہ برس پہلے 11 ستمبر 2012 کے دن پاکستان کی تاریخ کے بدترین صنعتی سانحہ میں 260 مزدور جھلس کر جان بحق اور ساٹھ سے زائد مزدور جان بچاتے ہوئے زخمی ہو ئے تھے۔ اجتماع میں شہید مزدوروں کے لواحقین، مزدوروں ، سماجی و سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجتماع میں شہداء سانحہ بلدیہ کے لیے انصاف کے حصول کی جدوجہد کرنے والی مزدور رہنما سعیدہ خاتون مرحومہ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جو پچھلے سال کینسر سے لڑتے ہوئَے انتقال کر گئیں تھیں۔
یاد گاری مزدور اجتماع سے خطاب میں مزدور رہنما نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ سانحہ بلدیہ سیاسی وگروہی مفادات کی نذر ہو گیا جس کی وجہ سے اس واقعہ کے حقیقی ذمہ داران فیکٹری مالکان معصوم بنے آزاد گھوم رہے ہیں ۔ بعض طاقت ور عناصر نے ایک منصوبہ طریقہ سے اصل قاتلوں کو بچانے کے لیے نام نہاد جے آئی ٹی کا سہارا لیا جس کی فائنڈنگز حقائق سے کو سوں دور تھیں۔ مزدور تحریک اور لواحقیق پچھلے گیارہ سالوں سے اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ فیکڑی میں آگ لگی یا لگائی گئی ، فیکٹری میں ہونے والی ہلاکتوں کی اہم وجہ باہر نکلے کے راستوں کا مسدود ہونا ، کھڑکیوں کو بھاری سلاخوں سے بند کیا جانا، آگ بجھانے کے آلات کا نا کارہ اور مزوروں کو ان کے استعمال کی ٹرینگ نہ ہونے کے علاوہ، غیر قانونی بلڈنگ اسٹرکچر، فیکٹری کے اندر بوائلز کی موجودگی اور ایمرجنسی فائر الارمز کا نہ ہونا شامل تھا۔مزدوروں کی ہلاکتوں کی وجوہات میں مالکان کی مجرمانہ غفلت اور لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی شامل تھیں ۔ جنہیں مظلوم بنا کر پیش کیا گیا۔ سانحہ بلدیہ میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لیے انصاف کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔
مزدور رہنماوں نے مزید کہا یہ سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن ، مزدور تحریک خصوصا نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ لواحقین کو معاوضہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی سے پنشن کا اجراء ہوا ۔ جب کہ حال ہی میں جرمنی اور ہالینڈ میں ڈیو ڈیلیجنسکا قا نون منظور ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان ممالک میں مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں ان کی غیر قانونی طرز عمل پر قانون کے سامنے جواب دہ بنایا جا سکے گا۔ ایسی ہی قانون سازی پورپین پارلیمنٹ میں ہونے جا رہی ہے۔
مزدور رہنما نے مزید کہا کہ سانحہ بلدیہ جیسے صنعتی سانحات روکنے کے لیے بنگلہ دیشن کے بعد پاکستان میں بھی کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے ''پاکستان اکارڈ'' ایک ایسا تاریخی معاہدہ ہے جو پاکستان کی سات سو سے زائد چھوٹی بڑی ٹیکسٹائل گارمنٹس فیکٹریوں میں صحت و تحفظ کے انتظامات کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ جو پانچ لاکھ سے زائد مزدوروں کی زندگیوں اور صحت کو محفوظ بنائے ۔ اب تک ستر سے زائد معروف بین الاقوامی برانڈز اس اکارڈ ( معاہدہ ) کا حصہ بن چکے ہیں جو کہ صنعتی ترقی کے لیے خوش آئند عمل ہے۔بد قسمتی سے کئی ایک بین الاقوامی برانڈز نے ابھی تک اس معاہدہ میں شامل نہیں ہوئےان کے لیے ضروری ہےکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اکارڈ کا حصہ بنیں ۔ پاکستان مزدور تنظیں اس اکارڈ کو خوش آمدید کہتی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس اکارڈ کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ کام کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کو روکا جا سکے۔
لواحقین کے نمائندوں نے ایک اہم مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ بلدیہ متاثرین کے لیے جرمن برانڈ نے چھ اعشاریہ ایک ملین ڈالر کی رقم لانگ ٹرم کمپن شین کی مد میں ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ادا کئے تھے جس کی انویسمنٹ اور اس سے متعلق معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے پاکستان میں ایک ''اوور سائٹ کمیٹی ''، تشکیل دی گئی تھی جو لواحقین ، مزدورں ، حکومت سندھ اور آئی ایل او کے نمائندوں پر مشتمل تھی، بدقسمتی سے آئی ایل او نے لواحقین اور مزدور نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر جرمن برانڈ کی فراہم کردہ رقم ایک مخصوص انشورنس کمپنی میں انویسمنٹ کر دی ہے۔ جس کے بارے میں نہ تو بتایا جا رہا ہے کہ کتنی رقم انشورنس کمپنی کو ادا کی گئی ہے ۔اور نہ ہی لواحقین اور مزدور نمائندوں کے بار بار مطالبہ کے باوجود آئی ایل او آفس انشورنس کمپنی سے کیے گئے معاہدہ کی دستاویز فراہم کرنے سے انکار کر رہا ہے ۔ آئی ایل او نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اوور سائیٹ کمیٹی بھی ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے متاثرین اپنے مسائل کے حل کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ جبکہ کراچی میں آئی ایل او کی ایک نمائندہ سیسی کے ایک اہل کار کے ساتھ مل کر متاثرہ خان دانوں کو مسلسل خوف زدہ کر رہی ہے۔
اجتماع سے خطاب کرتے مقررین نے کہا کہ گروپ انشورنس اور گریجویٹی کی رقووم گیارہ سال گزرنے کے باوجود متاثرہ خاندانوں کونہیں ملی لیکن فیکٹری مالکان نے متاثرہ فیکٹری کو مسمار کر دیا ہے اور یہ بھِی کہا جا رہا ہے کہ اسے فروخت کر دیا گیا ہے۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن دیگر ملکی و بین الااقومی مزدور تنظیموں کے اشتراک سے شہداء کی یادگار تعمیر کرے گی۔
اجتماع میں مطالبہ کیا گیا کہ
فیکٹریوں کارگاہوں میں صحت و سلامتی کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔=
= سندھ پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت ایکٹ کو فی الفور لاگو کیا جائے۔
سانحہ بلدیہ کی ازسر نو تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور اس سانحہ کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی اجائے۔=
= سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں سانحہ میں شہید ہونے والے مزدوروں کو والدین کی ای او بی آئی کی پنشن بحال کی جائے۔
= سانحہ بلدیہ کے شہید ورکرز کے لواحقین کو گروپ انشورنس کی ادائیگی تک متاثرہ فیکٹری کو حکومت اپنی تحویل میں لے اور مالکان کے اکاونٹس کو منجمد کیا جائے۔
سانحہ بلدیہ کے شہیدء کی یاد میں لیبر ٹرئینگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے۔=
=آئی ایل او انشورنس کمپنی سے کیا گیا معاہدہ لواحقین اور مزدور تنظیموں کو فراہم کرے۔
= لواحقین اور مزدور تنظیموں سے مشاورت کے بغیر آئی ایل او نے جس غیر شفاف انداز میں ایک مخصوص انشورنس کمپنی سے معاہدہ کیا ہے اس کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں ۔
=لواحقین کے مسائل اور معاوضہ کی رقم سے متعلق فیصلوں کے لیے اوور سائیٹ کمپٹی کو بحال کیا جائے۔
= آئی ایل او نمائندے لواحقین کو خوف زدہ کرنے کا سلسلہ بند کریں
= سندھ سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن گورننگ باڈی نے پنشن میں اضافہ کی منظوری دی ہے اس پر فی الفور عمل درآمد کیا جائے۔
=حکومت، مالکان ‘‘پاکستان اکارڈ '' پر عمل درآمد میں معاون و مددگار بن کر ملکی ترقی کے اس پروگرام کو کامیاب بنائیں۔
= فیکٹریوں کارخانوں میں لیبر قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جا ئے۔
اجتماع سے خطاب کرنے والے مقررین میں ناصر منصور، رفیق بلوچ، ریاض عباسی ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن۔ گل رحمان، ورکرز رائٹس موومنٹ، زہرا خان ، سائرہ فیروز ، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن، حسنہ خاتون، محمد صدیق، محمد جمیل ، شوکت ، سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن ، کرامت علی، لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ، حبیب الدین جنیدی ، پیپلز لیبر بیورو، اسد اقبال بٹ اور قاضی خضر ، ہوم رائٹس کمپشن آف پاکستان ، سعید بلوچ ، پاکستان فشر فورک فورم ، داکامریڈ واحد بلوچ، خالق زردگان، عوامی حقوق، فرحت پروین ، ناو کمیونٹی ، بشری آرائیں ، لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین، مرزا مقصد ، اسٹیل ملز، کامریڈ جنت پاکستان ڈیفنس کمپین ، عابد لیبرٹی ٹیکسٹائل ملز ورکرز یونین، عاقب حسین، سارہ خان، فائزہ صدیقی، اقبال ابڑو، ہمت ، شہزاد حسین، عینی یونس، آلٹرنیٹ، و دیگر شامل تھے ۔
رابط 03162004418
0 تبصرے