نواز شریف کی کون سی بڑی غلطیوں نے ن لیگ کو ڈبویا؟

نواز شریف کی پہلی بڑی سیاسی غلطی ڈیل کرکے بیرون ملک جانا تھا

نواز شریف کی کون سی بڑی غلطیوں نے ن لیگ کو ڈبویا؟

اسلام آباد؛ سابق صدر آصف علی زرداری کی کامیاب حکمت عملی اور نواز شریف کی دو غلطیوں نے (ن) لیگ کی سیاست کو گہری کھائی میں دھکیل دیا۔ معروف صحافی جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی پہلی بڑی سیاسی غلطی ڈیل کرکے بیرون ملک جانا تھا جب کہ دوسری بڑی غلطی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد الیکشن کرانے کے بجائے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا تھا۔ آج عوام اسحاق ڈار اور شہباز شریف کو مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، نواز شریف عوام کے سامنے کیسے آئیں گے اور 16 ماہ کی حکومت کے بعد عوام کو کیسے مطمئن کریں گے؟ اس صورتحال میں (ن) لیگ متحد نہیں ہوسکی، جب کہ آصف علی زرداری نے 16 ماہ تک حکومت کے مزے لوٹے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت خارجہ کا تجربہ بھی ملا، تاہم بڑی حکمت عملی سے پارٹی کو مہنگائی اور سخت حکومتی فیصلوں سے بچا لیا گیا۔ اس کے علاوہ مہنگائی جیسے عوام دشمن سخت فیصلوں کا سارا سیاسی نقصان (ن) لیگ کے حصے میں آیا ہے۔ اب نواز شریف کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ وہ، مریم نواز اور حمزہ اعلان کریں کہ تینوں میں سے کوئی بھی اگلی حکومت میں نہیں ہوگا۔ نواز شریف ہی پارٹی کو سنبھالیں گے۔ پارٹی کے کچھ پڑھے لکھے لیڈروں کو حکومت چلانے کا موقع دیا جائے۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد بھی عبوری وزیراعظم کے لیے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کا انتخاب کیا گیا تاہم آصف علی زرداری کے کہنے پر شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی غلطی کی گئی۔ فوری انتخابات نہ کروانا بھی بہت بڑی غلطی تھی۔ یہ فیصلہ آصف علی زرداری کے مشورے پر کیا گیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، (ن) لیگ کا سیاسی جہاز ڈوب گیا، اسحاق ڈار اور شہباز شریف نے لندن میں ایسے پناہ لے رکھی ہے جیسے عوامی غیض و غضب سے خوفزدہ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی بھی مشکل میں ہے۔ سندھ نے اپنے 15 سالہ دور حکومت میں کرپشن کے ریکارڈ توڑے۔ نتیجتاً اس کا دائرہ بھی تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری کے لیے یہ بھی مناسب ہے کہ وہ اور بلاول بھٹو زرداری مستقبل میں خود کو پارٹی چلانے تک محدود رکھیں اور پارٹی کے پڑھے لکھے، محنتی رہنماؤں کو اہم عہدوں اور وزارتوں پر تعینات کریں۔ملک کی موجودہ صورتحال سے واضح رہے کہ انتخابات فروری میں ہوں گے، پیپلز پارٹی 90 روز میں انتخابات کرانے کے مطالبے پر عمل درآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسی طرح ستمبر یا اکتوبر میں نواز شریف کے آنے سے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اب نواز شریف کے پاس کوئی عوامی نعرہ نہیں بچا۔ پارٹی اندرونی طور پر بھی بہت کمزور ہو چکی ہے۔ اسحاق ڈار اور شہباز شریف کو عرصہ دراز سے مہنگائی نے مارے عوام کو معاف ہوتے نظر نہیں آرہے، نواز شریف آئے تو کتنے کروڑ عوام ان کا استقبال کریں گے۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔