پاکستان میں بجلی کا بحران صرف پیداوار یا ترسیل کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک ایسا معاشی بوجھ بن چکا ہے جس کا وزن غریب شہریوں کی ہڈیوں تک میں محسوس ہوتا ہے۔ گردشی قرضے کا حجم مالی سال 2025 میں 2600 ارب روپے تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے توانائی کے شعبے میں مالیاتی نظم و ضبط، شفافیت اور منصفانہ تقسیم سبھی کمزور ہو چکی ہیں۔ اس قرضے کے بڑھنے کی بنیادی وجوہات میں حکومتی سبسڈی کی تاخیر، ریکوری کی ناکامی، اور پاور پروڈیوسرز کو کیے جانے والے مہنگے معاہدے شامل ہیں۔ مگر اصل مسئلہ یہ نہیں کہ قرضہ بڑھ رہا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی قیمت کون ادا کر رہا ہے—اور بدقسمتی سے یہ قیمت سب سے زیادہ وہ لوگ چکا رہے ہیں جو سب سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں شامل تین بڑے سرچارج ڈیٹ سروسنگ سرچارج، ٹیرف ریگولرائزیشن سرچارج اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا نفاذ بظاہر تکنیکی معاملہ نظر آتا ہے، لیکن اس کا اثر معاشرے کے نچلے طبقوں پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سرچارج فی یونٹ یکساں ہوتے ہیں، یعنی امیر اور غریب دونوں پر ایک ہی حساب سے لاگو ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ گھرانہ جو ہر ماہ 70 سے 100 یونٹ استعمال کرتا ہے، اور مشکل سے اپنا بجٹ پورا کرتا ہے، وہ بھی اسی فی یونٹ اضافے کا بوجھ اٹھاتا ہے جو ہزار یونٹ خرچ کرنے والا صاحبِ حیثیت گھرانہ دیتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں توانائی کے بحران کی سماجی ناانصافی کھل کر سامنے آتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کے سب سے کم آمدنی والے 40 فیصد گھرانے اپنے بجلی کے بل کا تقریباً 60 فیصد صرف قرضے کے سرچارجز کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، معاشی طور پر طاقتور 20 فیصد گھرانے زیادہ بجلی استعمال کرنے کے باوجود اپنے بلوں میں قرضے کی مد میں صرف 20 فیصد ادا کرتے ہیں۔ یوں کم آمدنی والا گھرانہ اپنی محدود کمائی سے کہیں زیادہ حصہ ادا کر کے ایک ایسے مالیاتی خسارے کا بوجھ اٹھاتا ہے جسے اُس نے پیدا ہی نہیں کیا۔ یہ مسئلہ مزید سنگین تب ہو جاتا ہے جب بجلی کی مجموعی قیمت پر نظر ڈالی جائے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا۔ 2015 میں اوسط نرخ 12 سے 13 روپے کے درمیان تھے، جو 2025 تک بڑھ کر 34 روپے سے بھی اوپر جا پہنچے ہیں۔ اس سطح کی مہنگائی کے اثرات سب پر پڑتے ہیں، مگر غریب شہریوں کے لیے یہ براہِ راست روزمرہ زندگی اور گھریلو بجٹ پر حملہ ہے۔ ان میں سے بیشتر پہلے ہی محدود آمدنی، بے روزگاری اور مہنگائی سے جوجھ رہے ہیں۔ بجلی کے بڑھتے نرخ نہ صرف ان کی بنیادی ضروریات متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کی معاشی حرکت پذیری کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔
دوسری جانب امیر گھرانے اس بوجھ سے نسبتاً محفوظ ہیں۔ ایک طرف وہ زیادہ آمدنی رکھتے ہیں، دوسری طرف ان میں سے بڑی تعداد نے سولر پینلز لگا کر خود کو قومی گرڈ کی مہنگائی اور اتار چڑھاؤ سے کافی حد تک الگ کر لیا ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے خرچ کو کم کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات گرڈ کو بجلی واپس دے کر مالی فائدہ بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن سولر کی یہ سہولت غریب یا متوسط طبقے کے لیے دستیاب نہیں، کیونکہ ابتدائی سرمایہ کاری ہی ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس عدم مساوات کا نتیجہ یہ ہے کہ جو طبقہ بجلی کے نظام سے باہر نکلنے کی استطاعت رکھتا ہے، وہ نکل جاتا ہے اور جو نہیں نکل سکتا، اس پر بوجھ دوگنا ہو جاتا ہے، کیونکہ گرڈ کی لاگت اب کم استعمال کرنے والوں پر تقسیم ہوتی ہے۔ یہ سارا منظرنامہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا توانائی کا معاشی ماڈل شدید غیر مساوی ہے۔ بجلی کی قیمت کا بوجھ آمدنی کے مطابق نہیں بلکہ استعمال کے مطابق تقسیم ہوتا ہے، اور یہ تقسیم خود بھی غیر منصفانہ ہے کیونکہ امیر زیادہ استعمال کے باوجود بجلی سستی متحمل کر لیتے ہیں جبکہ غریب کم استعمال کے باوجود زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ اگر گردشی قرضہ ختم کرنا ہے تو اس کی ادائیگی کا ڈھانچہ بدلنا ہوگا۔ یکساں سرچارج کا اصول ترک کرنا ہوگا۔ بجلی کے نرخوں کو آمدنی، استعمال اور ادائیگی کی صلاحیت سے منسلک کرنا ہوگا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ بجلی کے نرخوں کا بوجھ ان صارفین پر منتقل کیا جائے جو اسے برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ عالمی اصول بھی یہی ہے کہ کم استعمال کرنے والوں کو تحفظ دیا جائے اور زیادہ استعمال کرنے والوں پر اصل قیمت کا نفاذ کیا جائے۔ اگر پاکستان میں 200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے گھرانوں کو سرچارجز سے جزوی یا مکمل استثنیٰ دیا جائے اور ان سے اوپر کے صارفین—خاص طور پر 300، 500 اور 1000 یونٹ کے slabs—پر مناسب اضافی قیمت عائد کی جائے تو دو بڑے فوائد حاصل ہوں گے: کم آمدنی والے گھرانوں کو فوری ریلیف ملے گا اور گردشی قرضے کی مد میں ہونے والی ریکوری زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔ بجلی کے بحران کا حل مزید قرض لے کر یا نرخ بڑھا کر نہیں نکلے گا۔ اصل حل انصاف پر مبنی پالیسی میں ہے— ایسی پالیسی جس میں بجلی کا بوجھ اس طبقے پر ڈالا جائے جو اس کے قابل ہے، نہ کہ اس مجبور طبقے پر جو پہلے ہی معاشی طور پر کمزور ہے۔ اگر پاکستان نے توانائی کے شعبے میں پائیدار اصلاحات کرنی ہیں تو سب سے پہلے بجلی کے نرخوں کی یہ غیر مساوی تقسیم ختم کرنا ہوگی۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک منصفانہ، مستحکم اور قابلِ رسائی توانائی کا نظام کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
0 تبصرے