حالیہ دنوں خاران میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں غیرت کے نام پر ایک لڑکا اور لڑکی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس اندوہناک واقعے نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو غم و اندوہ میں مبتلا کیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بلوچ قبائل میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تیزی سے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اسلام اور انسانی معاشرہ دونوں ہی اس عمل کو شدید گناہ اور جرم قرار دیتے ہیں۔
قتل کسی بھی صورت میں جائز نہیں، یہ ایک عظیم گناہ ہے جس کی سخت ترین سزا قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ جب خاندان غیرت کے نام پر اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنی ہی عزت اور وقار کو کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے واقعات نہ صرف متاثرہ خاندان کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری بلوچ قوم کے تشخص پر بھی بدنما داغ چھوڑ جاتے ہیں۔
غیرت کے تحفظ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی کی جان لی جائے۔ اگر خاندان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اقدار پامال ہوئے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے حل کریں اور اپنے بچوں کو سمجھائیں، اصلاح کریں یا کوئی مناسب سماجی اور خاندانی سزا دیں۔ لیکن قتل جیسا قدم اٹھانا نہ تو مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی اس سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یہ خاندان اور قبیلے کو مزید ذلت اور شرمندگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
سماجی رہنماؤں اور باشعور طبقے کا کہنا ہے کہ اگر کسی خاندان کو اپنی عزت کے مجروح ہونے کا خدشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ معاملے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے حل کریں اور اصلاح کے ذریعے نوجوانوں کو راہِ راست پر لائیں، نہ کہ قتل جیسا سنگین قدم اٹھائیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم اور آگاہی کو فروغ دیا جائے، نوجوان نسل کو مثبت تربیت فراہم کی جائے اور قبائلی روایات کو اسلام اور انسانی اقدار کے مطابق ڈھالا جائے۔ بصورتِ دیگر غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات بلوچ معاشرے کی پہچان اور وقار کو مجروح کرتے رہیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائلی روایات کو اسلام کے اصولوں اور انسانی اقدار کے مطابق ڈھالا جائے۔ غیرت کے نام پر قتل کے بجائے تعلیم، آگاہی اور مثبت تربیت پر زور دیا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس طرح کے خونریز رویوں سے بچ سکیں۔
0 تبصرے