دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک وادی سندھ کی تہذیب ہے، اور اس کا سب سے بڑا اور شاندار شہر موہنجو دڑو تھا۔ یہ شہر آج سے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھا۔ جدید طرز کی گلیاں، نکاسیٔ آب کا نظام، پختہ اینٹوں کے مکان اور منصوبہ بند بستیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ تہذیب اپنے وقت سے کہیں آگے تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخرکار یہ عظیم شہر کیوں تباہ ہوا؟ کیا واقعی یہاں کوئی ایٹمی حملہ ہوا تھا جیسا کہ کچھ دعوے کرتے ہیں؟
ایٹمی حملے کا دعویٰ
بعض سازشی نظریات اور غیر سائنسی تحریروں میں کہا گیا ہے کہ موہنجو دڑو کے آثار سے ملنے والی کچھ ہڈیاں "تابکاری" کا شکار تھیں اور شہر کی اینٹیں ایسے جل گئیں جیسے کسی زبردست دھماکے میں پگھل گئی ہوں۔ ان دعووں کے مطابق یہ تباہی ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے ہوئی۔ کچھ لوگ تو اسے قدیم دور کی "ایٹمی جنگ" بھی قرار دیتے ہیں۔
لیکن ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور سائنس دان ان باتوں کو بے بنیاد سمجھتے ہیں۔ نہ تو یہاں کوئی ایسا شواہد ملا ہے جو ایٹمی دھماکے کی نشان دہی کرے اور نہ ہی تابکاری کی ایسی سطح دریافت ہوئی ہے جو کسی دھماکے کو ظاہر کرے۔ یہ سب زیادہ تر سنسنی خیز دعوے اور افسانوی تعبیرات ہیں۔
سائنسی اور تاریخی حقیقت
جدید تحقیق کے مطابق موہنجو دڑو کی تباہی کے اسباب زیادہ حقیقت پسندانہ اور قدرتی تھے:
1. موسمی تبدیلیاں – ماہرین کے مطابق اس خطے میں مونسون بارشوں کا نظام بتدریج کمزور پڑا۔ بارشوں کی کمی نے زراعت پر براہِ راست اثر ڈالا اور خوراک کی قلت پیدا ہوئی۔
2. دریاؤں کا رخ بدلنا – سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں وقت کے ساتھ بڑی تبدیلیاں آئیں۔ دریا کے رخ بدلنے اور سیلابوں نے آبادی کو بری طرح متاثر کیا۔
3. زرعی اور تجارتی بحران – پانی اور خوراک کی کمی کے باعث نہ صرف زراعت متاثر ہوئی بلکہ تجارت کا جال بھی ٹوٹ گیا۔ چونکہ یہ تہذیب تجارتی روابط پر قائم تھی، اس نظام کے ٹوٹنے سے شہر آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا۔
4. سماجی و اقتصادی زوال – جیسے جیسے وسائل کم ہوئے، معاشرتی مسائل بڑھے۔ لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے لگے اور شہر رفتہ رفتہ خالی ہوتا گیا۔
موہنجو دڑو کی اصل اہمیت
موہنجو دڑو آج بھی دنیا کے لیے ایک حیرت ہے۔ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانی ترقی صرف جدید سائنس کی دین نہیں بلکہ قدیم تہذیبیں بھی اپنی جگہ نہایت ترقی یافتہ تھیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی تہذیب جب ماحول اور وسائل کے ساتھ ہم آہنگ نہ رہ سکے تو زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔
نتیجہ
موہنجو دڑو کی تباہی کسی ایٹمی جنگ کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ قدرتی ماحولیاتی تبدیلیوں اور سماجی و اقتصادی مسائل کی وجہ سے ہوئی۔ سائنسی تحقیق اور آثارِ قدیمہ کے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس شہر کی اصل عظمت اس کے ایٹمی افسانوں میں نہیں بلکہ اس کے شاندار نظامِ تعمیرات اور قدیم انسانی ذہانت میں ہے جو آج بھی دنیا کو حیران کرتی ہے۔
0 تبصرے